آنکھ میں آنسو کا اور دل میں لہو کا کال ہے
ہے تمنا کا وہی جو زندگی کا حال ہے
یوں دھواں دینے لگا ہے جسم اور جاں کا الاؤ
جیسے رگ رگ میں رواں اک آتش سیال ہے
پھیلتے جاتے ہیں دام نارسی کے دائرے
تیرے میرے درمیاں کن حادثوں کا جال ہے
گھر گئی ہے دو زمانوں کی کشاکش میں حیات
اک طرف زنجیر ماضی ایک جانب حال ہے
ہجر کی راہوں سے اکبرؔ منزل دیدار تک
یوں ہے جیسے درمیاں اک روشنی کا سال ہے
غزل
آنکھ میں آنسو کا اور دل میں لہو کا کال ہے
اکبر حیدرآبادی