EN हिंदी
سایوں سے بھی ڈر جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ | شیح شیری
sayon se bhi Dar jate hain kaise kaise log

غزل

سایوں سے بھی ڈر جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ

اکبر حیدرآبادی

;

سایوں سے بھی ڈر جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ
جیتے جی ہی مر جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ

چھوڑ کے مال و دولت ساری دنیا میں اپنی
خالی ہاتھ گزر جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ

بجھے دلوں کو روشن کرنے سچ کو زندہ رکھنے
جان سے اپنی گزر جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ

عقل و خرد کے بل بوتے پر سب کو حیراں کر کے
کام انوکھے کر جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ

ہو بے لوث محبت جن کی غنی ہوں جن کے دل
دامن سب کے بھر جاتے ہیں ایسے ایسے لوگ