دشت وحشت خیز میں عریاں ہے آغاؔ آپ ہی
قاصد جاناں کو کیا دیتا جو خلعت مانگتا
آغا اکبرآبادی
دیکھیے پار ہو کس طرح سے بیڑا اپنا
مجھ کو طوفاں کی خبر دیدۂ تر دیتے ہیں
آغا اکبرآبادی
دیکھو تو ایک جا پہ ٹھہرتی نہیں نظر
لپکا پڑا ہے آنکھ کو کیا دیکھ بھال کا
آغا اکبرآبادی
دوشالہ شال کشمیری امیروں کو مبارک ہو
گلیم کہنہ میں جاڑا فقیروں کا بسر ہوگا
آغا اکبرآبادی
ہاتھ دونوں مری گردن میں حمائل کیجے
اور غیروں کو دکھا دیجے انگوٹھا اپنا
آغا اکبرآبادی
ہم نہ کہتے تھے کہ سودا زلف کا اچھا نہیں
دیکھیے تو اب سر بازار رسوا کون ہے
آغا اکبرآبادی
ہمیں تو ان کی محبت ہے کوئی کچھ سمجھے
ہمارے ساتھ محبت انہیں نہیں تو نہیں
آغا اکبرآبادی