EN हिंदी
فتنے عجب طرح کے سمن زار سے اٹھے | شیح شیری
fitne ajab tarah ke saman-zar se uThe

غزل

فتنے عجب طرح کے سمن زار سے اٹھے

اکبر حیدرآبادی

;

فتنے عجب طرح کے سمن زار سے اٹھے
سارے پرند شاخ ثمردار سے اٹھے

دیوار نے قبول کیا سیل نور کو
سائے تمام تر پس دیوار سے اٹھے

جن کی نمو میں تھی نہ معاون ہوا کوئی
ایسے بھی گل زمین خس و خار سے اٹھے

تسلیم کی سرشت بس ایجاب اور قبول
سارے سوال جرأت انکار سے اٹھے

شہر تعلقات میں اڑتی ہے جن سے خاک
فتنے وہ سب رعونت پندار سے اٹھے

آنکھوں کو دیکھنے کا سلیقہ جب آ گیا
کتنے نقاب چہرۂ اسرار سے اٹھے

تصویر گرد بن گیا اکبرؔ چمن تمام
کیسے غبار وادی کہسار سے اٹھے