EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

گو راہزن کا وار بھی کچھ کم نہ تھا مگر
جو وار کارگر ہوا وہ رہنما کا تھا

اکبر حمیدی




ہوا سہلا رہی ہے اس کے تن کو
وہ شعلہ اب شرارے دے رہا ہے

اکبر حمیدی




ہو بہ ہو آپ ہی کی مورت ہے
زندگی کتنی خوبصورت ہے

اکبر حمیدی




جل کر گرا ہوں سوکھے شجر سے اڑا نہیں
میں نے وہی کیا جو تقاضا وفا کا تھا

اکبر حمیدی




کئی حرفوں سے مل کر بن رہا ہوں
بجائے لفظ کے الفاظ ہوں میں

اکبر حمیدی




کبھی جو وقت زمانے کو دیتا ہے گردش
مرے مکاں سے بھی کچھ لا مکاں گزرتے ہیں

اکبر حمیدی




کہیں تو حرف آخر ہوں میں اکبرؔ
کسی کا نقطۂ آغاز ہوں میں

اکبر حمیدی