گھٹن عذاب بدن کی نہ میری جان میں لا
بدل کے گھر مرا مجھ کو مرے مکان میں لا
مری اکائی کو اظہار کا وسیلہ دے
مری نظر کو مرے دل کو امتحان میں لا
سخی ہے وہ تو سخاوت کی لاج رکھ لے گا
سوال عرض طلب کا نہ درمیان میں لا
دل وجود کو جو چیر کر گزر جائے
اک ایسا تیر تو اپنی کڑی کمان میں لا
ہے وہ تو حد گرفت خیال سے بھی پرے
یہ سوچ کر ہی خیال اس کا اپنے دھیان میں لا
بدن تمام اسی کی صدا سے گونج اٹھے
تلاطم ایسا کوئی آج میری جان میں لا
چراغ راہ گزر لاکھ تابناک سہی
جلا کے اپنا دیا روشنی مکان میں لا
بہ رنگ خواب سہی ساری کائنات اکبرؔ
وجود کل کو نہ اندیشۂ گمان میں لا
غزل
گھٹن عذاب بدن کی نہ میری جان میں لا
اکبر حیدرآبادی