بہ پاس دل جسے اپنے لبوں سے بھی چھپایا تھا
مرا وہ راز تیرے ہجر نے پہنچا دیا سب تک
قتیل شفائی
داد سفر ملی ہے کسے راہ شوق میں
ہم نے مٹا دئے ہیں نشاں اپنے پاؤں کے
قتیل شفائی
ٹیگز:
| 2 لائنیں شیری |
دل پہ آئے ہوئے الزام سے پہچانتے ہیں
لوگ اب مجھ کو ترے نام سے پہچانتے ہیں
قتیل شفائی
دشمنی مجھ سے کئے جا مگر اپنا بن کر
جان لے لے مری صیاد مگر پیار کے ساتھ
قتیل شفائی
ٹیگز:
| 2 لائنیں شیری |
دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا
قتیل شفائی
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا
قتیل شفائی
گنگناتی ہوئی آتی ہیں فلک سے بوندیں
کوئی بدلی تری پازیب سے ٹکرائی ہے
قتیل شفائی
ٹیگز:
| 2 لائنیں شیری |