EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

لے میرے تجربوں سے سبق اے مرے رقیب
دو چار سال عمر میں تجھ سے بڑا ہوں میں

قتیل شفائی




مانا جیون میں عورت اک بار محبت کرتی ہے
لیکن مجھ کو یہ تو بتا دے کیا تو عورت ذات نہیں

قتیل شفائی




میں اپنے دل سے نکالوں خیال کس کس کا
جو تو نہیں تو کوئی اور یاد آئے مجھے

قتیل شفائی




میں گھر سے تیری تمنا پہن کے جب نکلوں
برہنہ شہر میں کوئی نظر نہ آئے مجھے

قتیل شفائی




میں جب قتیلؔ اپنا سب کچھ لٹا چکا ہوں
اب میرا پیار مجھ سے دانائی چاہتا ہے

قتیل شفائی




مت آئیو تم شہر میں بن بن ناچتے مور
نرت کے دشمن سب یہاں کیا حاکم کیا چور

قتیل شفائی




میرے بعد وفا کا دھوکا اور کسی سے مت کرنا
گالی دے گی دنیا تجھ کو سر میرا جھک جائے گا

قتیل شفائی