EN हिंदी
منظر سمیٹ لائے ہیں جو تیرے گاؤں کے | شیح شیری
manzar sameT lae hain jo tere ganw ke

غزل

منظر سمیٹ لائے ہیں جو تیرے گاؤں کے

قتیل شفائی

;

منظر سمیٹ لائے ہیں جو تیرے گاؤں کے
نیندیں چرا رہے ہیں وہ جھونکے ہواؤں کے

تیری گلی سے چاند زیادہ حسیں نہیں
کہتے سنے گئے ہیں مسافر خلاؤں کے

پل بھر کو تیری یاد میں دھڑکا تھا دل مرا
اب دور تک بھنور سے پڑے ہیں صداؤں کے

داد سفر ملی ہے کسے راہ شوق میں
ہم نے مٹا دئے ہیں نشاں اپنے پاؤں کے

جب تک نہ کوئی آس تھی یہ پیاس بھی نہ تھی
بے چین کر گئے ہمیں سائے گھٹاؤں کے

ہم نے لیا ہے جب بھی کسی راہزن کا نام
چہرے اتر اتر گئے کچھ رہنماؤں کے

اگلے گا آفتاب کچھ ایسی بلا کی دھوپ
رہ جائیں گے زمین پہ کچھ داغ چھاؤں کے