یار کا کوچہ ہے مسجود خلایق دیکھ لے
سنگ ہے کعبہ میں مورت دیر میں ہے مشترک
قاسم علی خان آفریدی
ثبوت مانگتے ہیں وہ مری وفا کا جلالؔ
ہر اک سے ترک تعلق کیا ہے جن کے لئے
قاسم جلال
در امکان کی دستک مجھے بھیجی گئی ہے
میری قسمت میں تو موجود کی دولت نہیں ہے
قاسم یعقوب
کیا ہو سکے حساب کہ جب آگہی کہے
اب تک تو رائیگانی میں سارا سفر کیا
قاسم یعقوب
یہ جھانک لیتی ہے اندر سے آرزو خانہ
ہوا کا قد مری دیوار سے زیادہ ہے
قاسم یعقوب
یہ کیا کہ بیٹھا ہے دریا کنار دریا پر
میں آج بہتا ہوا جا رہا ہوں پانی میں
قاسم یعقوب
انگڑائی پر انگڑائی لیتی ہے رات جدائی کی
تم کیا سمجھو تم کیا جانو بات مری تنہائی کی
قتیل شفائی