EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

یار کا کوچہ ہے مسجود خلایق دیکھ لے
سنگ ہے کعبہ میں مورت دیر میں ہے مشترک

قاسم علی خان آفریدی




ثبوت مانگتے ہیں وہ مری وفا کا جلالؔ
ہر اک سے ترک تعلق کیا ہے جن کے لئے

قاسم جلال




در امکان کی دستک مجھے بھیجی گئی ہے
میری قسمت میں تو موجود کی دولت نہیں ہے

قاسم یعقوب




کیا ہو سکے حساب کہ جب آگہی کہے
اب تک تو رائیگانی میں سارا سفر کیا

قاسم یعقوب




یہ جھانک لیتی ہے اندر سے آرزو خانہ
ہوا کا قد مری دیوار سے زیادہ ہے

قاسم یعقوب




یہ کیا کہ بیٹھا ہے دریا کنار دریا پر
میں آج بہتا ہوا جا رہا ہوں پانی میں

قاسم یعقوب




انگڑائی پر انگڑائی لیتی ہے رات جدائی کی
تم کیا سمجھو تم کیا جانو بات مری تنہائی کی

قتیل شفائی