EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

حالات سے خوف کھا رہا ہوں
شیشے کے محل بنا رہا ہوں

قتیل شفائی




ہم کو آپس میں محبت نہیں کرنے دیتے
اک یہی عیب ہے اس شہر کے داناؤں میں

قتیل شفائی




ہم اسے یاد بہت آئیں گے
جب اسے بھی کوئی ٹھکرائے گا

قتیل شفائی




ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے
ابھی کچھ بے قراری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

قتیل شفائی




حوصلہ کس میں ہے یوسف کی خریداری کا
اب تو مہنگائی کے چرچے ہیں زلیخاؤں میں

قتیل شفائی




حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں
ان کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں

قتیل شفائی




جیت لے جائے کوئی مجھ کو نصیبوں والا
زندگی نے مجھے داؤں پہ لگا رکھا ہے

قتیل شفائی