EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ترا بخشا ہوا اک زخم پیارے
چلی ٹھنڈی ہوا جلنے لگا ہے

خورشید ربانی




اتر کے شاخ سے اک ایک زرد پتے نے
نئی رتوں کے لیے راستہ بنایا تھا

خورشید ربانی




وحشتیں عشق اور مجبوری
کیا کسی خاص امتحان میں ہوں

خورشید ربانی




وہ تغافل شعار کیا جانے
عشق تو حسن کی ضرورت ہے

خورشید ربانی




یہ دل کہ زرد پڑا تھا کئی زمانوں سے
میں تیرا نام لیا اور بہار آ گئی ہے

خورشید ربانی




یہ کار محبت بھی کیا کار محبت ہے
اک حرف تمنا ہے اور اس کی پذیرائی

خورشید ربانی




یہ کون آگ لگانے پہ ہے یہاں مامور
یہ کون شہر کو مقتل بنانے والا ہے

خورشید ربانی