EN हिंदी
کوئی گلاب کبھی اس کا دل دکھایا تھا | شیح شیری
koi gulab kabhi us ka dil dukhaya tha

غزل

کوئی گلاب کبھی اس کا دل دکھایا تھا

خورشید ربانی

;

کوئی گلاب کبھی اس کا دل دکھایا تھا
سو ریگزار پہ بھی وحشتوں کا سایہ تھا

اتر کے شاخ سے اک ایک زرد پتے نے
نئی رتوں کے لیے راستہ بنایا تھا

وہ شاخ سایۂ اخلاص کٹ گئی اک روز
تپش سے جس نے مجھے عمر بھر بچایا تھا

شجر شجر کو نشانہ بنانے والو تمہیں
خیال بھی نہ کسی گھونسلے کا آیا تھا

کسی خیال کسی خواب کے لیے خورشیدؔ
دیا دریچے میں رکھا تھا دل جلایا تھا