کوئی گلاب کبھی اس کا دل دکھایا تھا
سو ریگزار پہ بھی وحشتوں کا سایہ تھا
اتر کے شاخ سے اک ایک زرد پتے نے
نئی رتوں کے لیے راستہ بنایا تھا
وہ شاخ سایۂ اخلاص کٹ گئی اک روز
تپش سے جس نے مجھے عمر بھر بچایا تھا
شجر شجر کو نشانہ بنانے والو تمہیں
خیال بھی نہ کسی گھونسلے کا آیا تھا
کسی خیال کسی خواب کے لیے خورشیدؔ
دیا دریچے میں رکھا تھا دل جلایا تھا
غزل
کوئی گلاب کبھی اس کا دل دکھایا تھا
خورشید ربانی