دل و نگاہ میں کچھ اس طرح سما گئی ہے
تری نظر تو مجھے آئینہ بنا گئی ہے
ہوائے تازہ کا جھونکا ادھر سے کیا گزرا
گرے پڑے ہوئے پتوں میں جان آ گئی ہے
مرے غموں کا مداوا کرے گا کیا کوئی
شکست شیشۂ دل کی کہیں صدا گئی ہے
یہ دل کہ زرد پڑا تھا کئی زمانوں سے
میں تیرا نام لیا اور بہار آ گئی ہے
بھلا دیا ہے اسے ناز اٹھانے والوں نے
اسی لیے تو اسے میری یاد آ گئی ہے
غزل
دل و نگاہ میں کچھ اس طرح سما گئی ہے
خورشید ربانی