کوئی رسوائی ہے نہ شہرت ہے
یہ محبت ہے یا کرامت ہے
شوق میرا نہیں جنوں انگیز
سو بیاباں کو مجھ سے وحشت ہے
رنگ کیا کیا ہیں زیر بند قبا
در و دیوار تک کو حیرت ہے
وہ تغافل شعار کیا جانے
عشق تو حسن کی ضرورت ہے
میرے خورشید خوش گمان نہ ہو
مسکرانا تو اس کی عادت ہے
غزل
کوئی رسوائی ہے نہ شہرت ہے
خورشید ربانی