EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہوا سے کہہ دو کہ کچھ دیر کو ٹھہر جائے
خجل ہماری عبارت ہوا سے ہوتی ہے

خورشید طلب




ہوا تو ہے ہی مخالف مجھے ڈراتا ہے کیا
ہوا سے پوچھ کے کوئی دیئے جلاتا ہے کیا

خورشید طلب




کبھی دماغ کو خاطر میں ہم نے لایا نہیں
ہم اہل دل تھے ہمیشہ رہے خسارے میں

خورشید طلب




کہیں بھی جائیں کسی شہر میں سکونت ہو
ہم اپنی طرز کی آب و ہوا بناتے ہیں

خورشید طلب




خدا نے بخشا ہے کیا ظرف موم بتی کو
پگھلتے رہنا مگر ساری رات چپ رہنا

خورشید طلب




کہ ہم بنے ہی نہ تھے ایک دوسرے کے لیے
اب اس یقین کو جینا حیات کرتے ہوئے

خورشید طلب




کوئی چراغ جلاتا نہیں سلیقے سے
مگر سبھی کو شکایت ہوا سے ہوتی ہے

خورشید طلب