EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

وفا کی پیار کی غم کی کہانیاں لکھ کر
سحر کے ہاتھ میں دل کی کتاب دیتا ہوں

خورشید احمد جامی




یاد ماضی کی پراسرار حسیں گلیوں میں
میرے ہم راہ ابھی گھوم رہا ہے کوئی

خورشید احمد جامی




یادوں کے درختوں کی حسیں چھاؤں میں جیسے
آتا ہے کوئی شخص بہت دور سے چل کے

خورشید احمد جامی




زندگانی کے حسیں شہر میں آ کر جامیؔ
زندگانی سے کہیں ہاتھ ملائے بھی نہیں

خورشید احمد جامی




دیکھ کر بھی نہ دیکھنا اس کا
یہ ادا تو بتوں میں ہوتی ہے

خورشید ربانی




ہوائے تازہ کا جھونکا ادھر سے کیا گزرا
گرے پڑے ہوئے پتوں میں جان آ گئی ہے

خورشید ربانی




خدا کرے کہ کھلے ایک دن زمانے پر
مری کہانی میں جو استعارہ خواب کا ہے

خورشید ربانی