EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

مری مشکل مری مشکل نہیں ہے
وسیلہ تیری آسانی کا میں ہوں

خورشید طلب




روز دیوار میں چن دیتا ہوں میں اپنی انا
روز وہ توڑ کے دیوار نکل آتی ہے

خورشید طلب




سب ایک دھند لیے پھر رہے ہیں آنکھوں میں
کسی کے چہرے پہ ماضی نہ حال دیکھتا ہوں

خورشید طلب




سب نے دیکھا اور سب خاموش تھے
ایک صوفی کا مزار اڑتا ہوا

خورشید طلب




طلبؔ بڑی ہی اذیت کا کام ہوتا ہے
بکھرتے ٹوٹتے رشتوں کا بوجھ ڈھونا بھی

خورشید طلب




اس نے آ کر ہاتھ ماتھے پر رکھا
اور منٹوں میں بخار اڑتا ہوا

خورشید طلب




زمینیں تنگ ہوئی جا رہی ہیں دل کی طرح
ہم اب مکان نہیں مقبرہ بناتے ہیں

خورشید طلب