رکھے ہے شیشہ مرا سنگ ساتھ ربط قدیم
کہ آٹھ پہر مرے دل کو ہے شکست سے کام
شیخ ظہور الدین حاتم
رکھتا ہے عبادت کے لیے حسرت جنت
زاہد کی خدا ساتھ محبت سببی ہے
شیخ ظہور الدین حاتم
رعایت بوجھ تو معشوق کا جور
کہ تجھ کو عشق میں کامل کرے ہے
شیخ ظہور الدین حاتم
رشتۂ عمر دراز اپنا میں کوتاہ کروں
آوے یہ تار اگر تیرے بکار دامن
شیخ ظہور الدین حاتم
رخسار کے عرق کا ترے بھاؤ دیکھ کر
پانی کے مول نرخ ہوا ہے گلاب کا
شیخ ظہور الدین حاتم
صاف دل ہے تو آ کدورت چھوڑ
مل ہر اک رنگ بیچ آب کی طرح
شیخ ظہور الدین حاتم
صاحبان قصر کو ملتی نہیں ہے بعد مرگ
گور میں سر کے تلے تکیہ کی جاگا ایک خشت
شیخ ظہور الدین حاتم
ساقی مجھے خمار ستائے ہے لا شراب
مرتا ہوں تشنگی سے اے ظالم پلا شراب
شیخ ظہور الدین حاتم
صبر بن اور کچھ نہ لو ہم راہ
کوچۂ عشق تنگ ہے یارو
شیخ ظہور الدین حاتم