EN हिंदी
شیخ ظہور الدین حاتم شیاری | شیح شیری

شیخ ظہور الدین حاتم شیر

235 شیر

آ کر تری گلی میں قدم بوسی کے لیے
پھر آسماں کی بھول گیا راہ آفتاب

شیخ ظہور الدین حاتم




آئی عید و دل میں نہیں کچھ ہوائے عید
اے کاش میرے پاس تو آتا بجائے عید

شیخ ظہور الدین حاتم




آب حیات جا کے کسو نے پیا تو کیا
مانند خضر جگ میں اکیلا جیا تو کیا

شیخ ظہور الدین حاتم




آگے کیا تم سا جہاں میں کوئی محبوب نہ تھا
کیا تمہیں خوب بنے اور کوئی خوب نہ تھا

شیخ ظہور الدین حاتم




آج ہمیں اور ہی نظر آتا ہے کچھ صحبت کا رنگ
بزم ہے مخمور اور ساقی نشے میں چور ہے

شیخ ظہور الدین حاتم




عارض سے اس کے زلف میں کیوں کر ہے روشنی
ظلمات میں تو نام نہیں آفتاب کا

شیخ ظہور الدین حاتم




ابھی مسجد نشین طارم افلاک ہو جاوے
جو سب کچھ چھوڑ دل تیرے قدم کی خاک ہو جاوے

شیخ ظہور الدین حاتم




ادا و ناز و کرشمہ جفا و جور و ستم
ادھر یہ سب ہیں ادھر ایک میری جاں تنہا

شیخ ظہور الدین حاتم




عدل سے کر سلطنت اے دل تو تن کے ملک میں
وقت فرصت بوجھ لے یہ حکمرانی پھر کہاں

شیخ ظہور الدین حاتم