دورا ہے جب سے بزم میں تیری شراب کا
بازار گرم ہے مرے دل کے کباب کا
خوباں کو کس طرح سے لگا لے ہے بات میں
بندا ہوں اپنی طبع ظرافت مآب کا
جو نامہ بر گیا نہ پھرا ایک اب تلک
اے دل تو انتظار عبث ہے جواب کا
حسرت یہ ہے کہ رات کو آئے وہ ماہرو
دولت سے اس کی دید کروں ماہتاب کا
الطاف میں بھی اس کے اذیت ہے سو طرح
لاؤں کہاں سے حوصلہ اس کے عتاب کا
رخسار کے عرق کا ترے بھاؤ دیکھ کر
پانی کے مول نرخ ہوا ہے گلاب کا
حاتمؔ یہی ہمیشہ زمانے کی چال ہے
شکوہ بجا نہیں ہے تجھے انقلاب کا
غزل
دورا ہے جب سے بزم میں تیری شراب کا
شیخ ظہور الدین حاتم