میری فریاد کوئی نئیں سنتا
کوئی اس شہر میں بھی بستا ہے
شیخ ظہور الدین حاتم
مرا دل بار عشق ایسا اٹھانے میں دلاور ہے
جو اس کے کوہ دوں سر پر تو اس کو کاہ جانے ہے
شیخ ظہور الدین حاتم
مری باتوں سے اب آزردہ نہ ہونا ساقی
اس گھڑی عقل مری مجھ سے جدا پھرتی ہے
شیخ ظہور الدین حاتم
معتکف ہو شیخ اپنے دل میں مسجد سے نکل
صاحب دل کی بغل میں دل عبادت خانہ ہے
شیخ ظہور الدین حاتم
مدت ہوئی پلک سے پلک آشنا نہیں
کیا اس سے اب زیادہ کرے انتظار چشم
شیخ ظہور الدین حاتم
مدت سے آرزو ہے خدا وہ گھڑی کرے
ہم تم پئیں جو مل کے کہیں ایک جا شراب
شیخ ظہور الدین حاتم
مدت سے خواب میں بھی نہیں نیند کا خیال
حیرت میں ہوں یہ کس کا مجھے انتظار ہے
شیخ ظہور الدین حاتم
مہیا سب ہے اب اسباب ہولی
اٹھو یارو بھرو رنگوں سے جھولی
شیخ ظہور الدین حاتم
مجھے کیا دیکھ کر تو تک رہا ہے
ترے ہاتھوں کلیجہ پک رہا ہے
شیخ ظہور الدین حاتم