نہ محتسب سے یہ مجھ کو غرض نہ مست سے کام
مجھے تو لینا ہے ساقی کے آج دست سے کام
صنم تو میری پرستش کی قدر تب جانے
کہ جب پڑے تجھے کافر خدا پرست سے کام
میں گوشہ گیر ہوا سیر کر نشیب و فراز
رہا نہ میرے قدم کو بلند و پست سے کام
رکھے ہے شیشہ مرا سنگ ساتھ ربط قدیم
کہ آٹھ پہر مرے دل کو ہے شکست سے کام
جسے مساوی ہے ماضی و حال و مستقبل
اسے رہا نہیں آئندہ بود و ہست سے کام
میں کفر و دیں سے گزر کر ہوا ہوں لا مذہب
خدا پرست سے مطلب نہ بت پرست سے کام
کسو کو قید کرے ہے کسو کو باندھے ہے
وہ لے ہے اپنے عمل بیچ بند و بست سے کام
دل اس کی زلف کے پیچوں میں حاتمؔ الجھا ہے
رکھے نہیں ہے مرا صید دام و شست سے کام
غزل
نہ محتسب سے یہ مجھ کو غرض نہ مست سے کام
شیخ ظہور الدین حاتم