یار نکلا ہے آفتاب کی طرح
کون سی اب رہی ہے خواب کی طرح
چشم مست سیہ کی یاد مدام
شیشۂ دل میں ہے شراب کی طرح
کبھو خاموش ہوں کبھو گویا
سر نوشت ہے مری کتاب کی طرح
پست ہو چل مثال دریا کے
خیمہ برپا نہ کر حباب کی طرح
پا بوسی کوں اس کا ہے گر شوق
قد کوں اپنے بنا رکاب کی طرح
صاف دل ہے تو آ کدورت چھوڑ
مل ہر اک رنگ بیچ آب کی طرح
پیو پیوے ہے شراب حاتمؔ ساتھ
کیوں نہ دشمن جلے کباب کی طرح
غزل
یار نکلا ہے آفتاب کی طرح
شیخ ظہور الدین حاتم