نوجوانوں کو دیکھ کر حاتمؔ
یاد عہد شباب آوے ہے
شیخ ظہور الدین حاتم
نظر میں بند کرے ہے تو ایک عالم کو
فسوں ہے سحر ہے جادو ہے کیا ہے آنکھوں میں
شیخ ظہور الدین حاتم
نظر میں اس کی جو چڑھتا ہے سو جیتا نہیں بچتا
ہمارا سانولا اس شہر کے گوروں میں کالا ہے
شیخ ظہور الدین حاتم
نے کعبہ کی ہوس نہ ہوائے کنشت ہے
دیکھا تو دونوں جائے وہی سنگ و خشت ہے
شیخ ظہور الدین حاتم
نگاہیں جوڑ اور آنکھیں چرا ٹک چل کے پھر دیکھا
مرے چہرے اوپر کی شاہ خوباں نے نظر ثانی
شیخ ظہور الدین حاتم
پڑی پھرتی ہیں کئی لیلیٰ و شیریں ہر جا
پر کوئی ہائے یہاں مجنوں و فرہاد نہیں
شیخ ظہور الدین حاتم
پگڑی اپنی یہاں سنبھال چلو
اور بستی نہ ہو یہ دلی ہے
شیخ ظہور الدین حاتم
پہن کر جامہ بسنتی جو وہ نکلا گھر سوں
دیکھ آنکھوں میں مری پھول گئی ہے سرسوں
شیخ ظہور الدین حاتم
پھڑکوں تو سر پھٹے ہے نہ پھڑکوں تو جی گھٹے
تنگ اس قدر دیا مجھے صیاد نے قفس
شیخ ظہور الدین حاتم