سمجھتے ہم نہیں جو تم اشاروں بیچ کہتے ہو
مفصل کو تو ہم جانے ہیں یہ مجمل خدا جانے
شیخ ظہور الدین حاتم
سو بار تار تار کیا تو بھی اب تلک
ثابت وہی ہے دست و گریباں کی دوستی
شیخ ظہور الدین حاتم
شہر میں چرچا ہے اب تیری نگاہ تیز کا
دو کرے دل کے تئیں یہ نیمچہ انگریز کا
شیخ ظہور الدین حاتم
شیخ اس کی چشم کے گوشے سے گوشے ہو کہیں
اس طرف مت جاؤ ناداں راہ مے خانے کی ہے
شیخ ظہور الدین حاتم
شمع ہر شام تیرے رونے پر
صبح دم تک چراغ ہنستا ہے
شیخ ظہور الدین حاتم
سنو ہندو مسلمانو کہ فیض عشق سے حاتمؔ
ہوا آزاد قید مذہب و مشرب سے اب فارغ
شیخ ظہور الدین حاتم
سواد خال کے نقطے کی خوبی
جو عاشق ہے سو تل تل جانتا ہے
شیخ ظہور الدین حاتم
تابع رضا کا اوس کی ازل سیں کیا مجھے
چلتا نہیں ہے زور کسوں کا قضا کے ہاتھ
شیخ ظہور الدین حاتم
طبع تیری عجب تماشا ہے
گاہ تولا ہے گاہ ماشہ ہے
شیخ ظہور الدین حاتم