گل کی اور بلبل کی صحبت کو چمن کا شانہ ہے
سرو ہے جوں شمع تس پر فاختہ پروانہ ہے
روز و شب یا نوحہ یا زاری ہے یا آہ و فغاں
یا الٰہی یہ کوئی دل ہے کہ ماتم خانہ ہے
تن کر اس کی تیغ کے آگے ہوا ہے سر بکف
ہے قیامت ہے غضب یہ دل ہے یا دیوانہ ہے
بلبل تصویر کی مانند صید دل کے تئیں
نے ہوا اڑنے کی نے پروائے آب و دانہ ہے
ایک حالت پر نہ دیکھا اس کو ہم نے ایک آن
گہ گل و گہ بلبل و گہ شمع و گہ پروانہ ہے
معتکف ہو شیخ اپنے دل میں مسجد سے نکل
صاحب دل کی بغل میں دل عبادت خانہ ہے
مے کشو مجھ کو تمہاری بزم کی حسرت نہیں
پاس میرے دیدہ و دل شیشہ و پیمانہ ہے
خواب میں تھے جب تلک تھا دل میں دنیا کا خیال
کھل گئیں آنکھیں تو دیکھا ہم نے سب افسانہ ہے
شعر استادانہ و حاتمؔ ہے بے باکانہ وضع
طبع آزادانہ و اوقات درویشانہ ہے
غزل
گل کی اور بلبل کی صحبت کو چمن کا شانہ ہے
شیخ ظہور الدین حاتم