مشرب میں تو درست خراباتیوں کے ہے
مذہب میں زاہدوں کے نہیں گر روا شراب
شیخ ظہور الدین حاتم
مسجد میں سر پٹکتا ہے تو جس کے واسطے
سو تو یہاں ہے دیکھ ادھر آ خدا شناس
شیخ ظہور الدین حاتم
مستوں کا دل ہے شیشہ اور سنگ دل ہے ساقی
اچرج ہے جو نہ ٹوٹے پتھر سے آبگینہ
شیخ ظہور الدین حاتم
موسم گل کا مگر قافلہ جاتا ہے کہ آج
سارے غنچوں سے جو آواز جرس آتی ہے
شیخ ظہور الدین حاتم
مظہر حق کب نظر آتا ہے ان شیخوں کے تئیں
بسکہ آئینے پر ان آہن دلوں کے زنگ ہے
شیخ ظہور الدین حاتم
مزرع دنیا میں دانا ہے تو ڈر کر ہاتھ ڈال
ایک دن دینا ہے تجھ کو دانے دانے کا حساب
شیخ ظہور الدین حاتم
میرا معشوق ہے مزوں میں بھرا
کبھو میٹھا کبھو سلونا ہے
شیخ ظہور الدین حاتم
میرے آنسو کے پوچھنے کو میاں
تیری ہو آستیں خدا نہ کرے
شیخ ظہور الدین حاتم
میرے حواس خمسہ اسے دیکھ اڑ گئے
کیوں کر ٹھہر سکیں یہ کبوتر تھے پر گرے
شیخ ظہور الدین حاتم