EN हिंदी
شیخ ظہور الدین حاتم شیاری | شیح شیری

شیخ ظہور الدین حاتم شیر

235 شیر

کیوں مزاحم ہے میرے آنے سے
کوئی ترا گھر نہیں یہ رستا ہے

شیخ ظہور الدین حاتم




کیوں کر ان کالی بلاؤں سے بچے گا عاشق
خط سیہ خال سیہ زلف سیہ چشم سیاہ

شیخ ظہور الدین حاتم




معلوم ہے کسو کو کہ وہ آج شعلہ خو
ہم کو جلا کے آگ لگانے کدھر گئے

شیخ ظہور الدین حاتم




میں جاں بلب ہوں اے تقدیر تیرے ہاتھوں سے
کہ تیرے آگے مری کچھ نہ چل سکی تدبیر

شیخ ظہور الدین حاتم




میں جتنا ڈھونڈھتا ہوں اس کو اتنا ہی نہیں پاتا
کدھر ہے کس طرف ہے اور کہاں ہے دل خدا جانے

شیخ ظہور الدین حاتم




میں کفر و دیں سے گزر کر ہوا ہوں لا مذہب
خدا پرست سے مطلب نہ بت پرست سے کام

شیخ ظہور الدین حاتم




میں پیر ہو گیا ہوں اور اب تک جواں ہے درد
میرے مرید ہو جو تمہیں دوستاں ہے درد

شیخ ظہور الدین حاتم




میں اس کی چشم سے ایسا گرا ہوں
مرے رونے پہ ہنستا ہے مرا دل

شیخ ظہور الدین حاتم




مجلس میں رات گریۂ مستاں تھا تجھ بغیر
ساغر بھرا شراب کا چشم پر آب تھا

شیخ ظہور الدین حاتم