کیوں مزاحم ہے میرے آنے سے
کوئی ترا گھر نہیں یہ رستا ہے
شیخ ظہور الدین حاتم
کیوں کر ان کالی بلاؤں سے بچے گا عاشق
خط سیہ خال سیہ زلف سیہ چشم سیاہ
شیخ ظہور الدین حاتم
معلوم ہے کسو کو کہ وہ آج شعلہ خو
ہم کو جلا کے آگ لگانے کدھر گئے
شیخ ظہور الدین حاتم
میں جاں بلب ہوں اے تقدیر تیرے ہاتھوں سے
کہ تیرے آگے مری کچھ نہ چل سکی تدبیر
شیخ ظہور الدین حاتم
میں جتنا ڈھونڈھتا ہوں اس کو اتنا ہی نہیں پاتا
کدھر ہے کس طرف ہے اور کہاں ہے دل خدا جانے
شیخ ظہور الدین حاتم
میں کفر و دیں سے گزر کر ہوا ہوں لا مذہب
خدا پرست سے مطلب نہ بت پرست سے کام
شیخ ظہور الدین حاتم
میں پیر ہو گیا ہوں اور اب تک جواں ہے درد
میرے مرید ہو جو تمہیں دوستاں ہے درد
شیخ ظہور الدین حاتم
میں اس کی چشم سے ایسا گرا ہوں
مرے رونے پہ ہنستا ہے مرا دل
شیخ ظہور الدین حاتم
مجلس میں رات گریۂ مستاں تھا تجھ بغیر
ساغر بھرا شراب کا چشم پر آب تھا
شیخ ظہور الدین حاتم