EN हिंदी
باغ میں تو کبھو جو ہنستا ہے | شیح شیری
bagh mein tu kabhu jo hansta hai

غزل

باغ میں تو کبھو جو ہنستا ہے

شیخ ظہور الدین حاتم

;

باغ میں تو کبھو جو ہنستا ہے
غنچۂ دل مرا بکستا ہے

ارے بے مہر مجھ کو روتا چھوڑ
کہاں جاتا ہے مینہ برستا ہے

تیرے ماروں ہوؤں کی صورت دیکھ
میرا مرنے کو جی ترستا ہے

تیری تروار سے کوئی نہ بچا
اب کمر کس اوپر تو کستا ہے

کیوں مزاحم ہے میرے آنے سے
کوئی ترا گھر نہیں یہ رستا ہے

میری فریاد کوئی نہیں سنتا
کوئی اس شہر میں بھی بستا ہے

حاتمؔ اس زلف کی طرف مت دیکھ
جان کر کیوں بلا میں پھنستا ہے