مجھے کیا دیکھ کر تو تک رہا ہے
ترے ہاتھوں کلیجہ پک رہا ہے
جہاں کیونکر نہ ہو نظروں میں تاریک
ترا منہ زلف نیچے ڈھک رہا ہے
تمہاری نا قدر دانی کا افسوس
ہمارے جی میں مرتے تک رہا ہے
خدا کے واسطے اس سے نہ بولو
نشے کی لہر میں کچھ بک رہا ہے
پھرا اب تک نہیں حاتمؔ کا قاصد
خدایا راہ میں کیا تھک رہا ہے
غزل
مجھے کیا دیکھ کر تو تک رہا ہے
شیخ ظہور الدین حاتم