نظر جو کوئی بھی تجھ سا حسیں نہیں آتا
کسی کو کیا مجھے خود بھی یقیں نہیں آتا
ترا خیال بھی تیری طرح ستم گر ہے
جہاں پہ چاہئے آنا وہیں نہیں آتا
جو ہونے والا ہے اب اس کی فکر کیا کیجے
جو ہو چکا ہے اسی پر یقیں نہیں آتا
یہ میرا دل ہے کہ منظر اجاڑ بستی کا
کھلے ہوئے ہیں سبھی در مکیں نہیں آتا
بچھڑنا ہے تو بچھڑ جا اسی دوراہے پر
کہ موڑ آگے سفر میں کہیں نہیں آتا
غزل
نظر جو کوئی بھی تجھ سا حسیں نہیں آتا
شہریار