EN हिंदी
تجھ سے بچھڑے ہیں تو اب کس سے ملاتی ہے ہمیں | شیح شیری
tujhse bichhDe hain to ab kis se milati hai hamein

غزل

تجھ سے بچھڑے ہیں تو اب کس سے ملاتی ہے ہمیں

شہریار

;

تجھ سے بچھڑے ہیں تو اب کس سے ملاتی ہے ہمیں
زندگی دیکھیے کیا رنگ دکھاتی ہے ہمیں

مرکز دیدہ و دل تیرا تصور تھا کبھی
آج اس بات پہ کتنی ہنسی آتی ہے ہمیں

پھر کہیں خواب و حقیقت کا تصادم ہوگا
پھر کوئی منزل بے نام بلاتی ہے ہمیں

دل میں وہ درد نہ آنکھوں میں وہ طغیانی ہے
جانے کس سمت یہ دنیا لیے جاتی ہے ہمیں

گردش وقت کا کتنا بڑا احساں ہے کہ آج
یہ زمیں چاند سے بہتر نظر آتی ہے ہمیں