تجھ سے بچھڑے ہیں تو اب کس سے ملاتی ہے ہمیں
زندگی دیکھیے کیا رنگ دکھاتی ہے ہمیں
مرکز دیدہ و دل تیرا تصور تھا کبھی
آج اس بات پہ کتنی ہنسی آتی ہے ہمیں
پھر کہیں خواب و حقیقت کا تصادم ہوگا
پھر کوئی منزل بے نام بلاتی ہے ہمیں
دل میں وہ درد نہ آنکھوں میں وہ طغیانی ہے
جانے کس سمت یہ دنیا لیے جاتی ہے ہمیں
گردش وقت کا کتنا بڑا احساں ہے کہ آج
یہ زمیں چاند سے بہتر نظر آتی ہے ہمیں
غزل
تجھ سے بچھڑے ہیں تو اب کس سے ملاتی ہے ہمیں
شہریار