اب مجھ ضعیف و زار کو مت کچھ کہا کرو
جاتی نہیں ہے مجھ سے کسو کی اٹھائی بات
میر تقی میر
اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے
دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں
any difference, in this madness, there may just not be
tween collar torn in sadness or clothes rent in penury
میر تقی میر
اب کر کے فراموش تو ناشاد کرو گے
پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کرو گے
میر تقی میر
اب جو اک حسرت جوانی ہے
عمر رفتہ کی یہ نشانی ہے
میر تقی میر
اب دیکھ لے کہ سینہ بھی تازہ ہوا ہے چاک
پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا
میر تقی میر
آورگان عشق کا پوچھا جو میں نشاں
مشت غبار لے کے صبا نے اڑا دیا
میر تقی میر
عاشقوں کی خستگی بد حالی کی پروا نہیں
اے سراپا ناز تو نے بے نیازی خوب کی
میر تقی میر
آہ سحر نے سوزش دل کو مٹا دیا
اس باد نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا
میر تقی میر
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ
میر تقی میر