EN हिंदी
میر تقی میر شیاری | شیح شیری

میر تقی میر شیر

120 شیر

کہتے تو ہو یوں کہتے یوں کہتے جو وہ آتا
یہ کہنے کی باتیں ہیں کچھ بھی نہ کہا جاتا

میر تقی میر




کون کہتا ہے نہ غیروں پہ تم امداد کرو
ہم فراموشیوں کو بھی کبھو یاد کرو

میر تقی میر




کون لیتا تھا نام مجنوں کا
جب کہ عہد جنوں ہمارا تھا

میر تقی میر




خراب رہتے تھے مسجد کے آگے مے خانے
نگاہ مست نے ساقی کی انتقام لیا

میر تقی میر




کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے

میر تقی میر




خدا کو کام تو سونپے ہیں میں نے سب لیکن
رہے ہے خوف مجھے واں کی بے نیازی کا

میر تقی میر




کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

میر تقی میر




کسو سے دل نہیں ملتا ہے یا رب
ہوا تھا کس گھڑی ان سے جدا میں

میر تقی میر




کتنی باتیں بنا کے لاؤں لیک
یاد رہتیں ترے حضور نہیں

میر تقی میر