کہتے تو ہو یوں کہتے یوں کہتے جو وہ آتا
یہ کہنے کی باتیں ہیں کچھ بھی نہ کہا جاتا
میر تقی میر
کون کہتا ہے نہ غیروں پہ تم امداد کرو
ہم فراموشیوں کو بھی کبھو یاد کرو
میر تقی میر
کون لیتا تھا نام مجنوں کا
جب کہ عہد جنوں ہمارا تھا
میر تقی میر
خراب رہتے تھے مسجد کے آگے مے خانے
نگاہ مست نے ساقی کی انتقام لیا
میر تقی میر
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
میر تقی میر
خدا کو کام تو سونپے ہیں میں نے سب لیکن
رہے ہے خوف مجھے واں کی بے نیازی کا
میر تقی میر
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
میر تقی میر
کسو سے دل نہیں ملتا ہے یا رب
ہوا تھا کس گھڑی ان سے جدا میں
میر تقی میر
کتنی باتیں بنا کے لاؤں لیک
یاد رہتیں ترے حضور نہیں
میر تقی میر