رات گزرے ہے مجھے نزع میں روتے روتے
آنکھیں پھر جائیں گی اب صبح کے ہوتے ہوتے
کھول کر آنکھ اڑا دید جہاں کا غافل
خواب ہو جائے گا پھر جاگنا سوتے سوتے
داغ اگتے رہے دل میں مری نومیدی سے
ہارا میں تخم تمنا کو بھی بوتے بوتے
جی چلا تھا کہ ترے ہونٹھ مجھے یاد آئے
لعل پائیں ہیں میں اس جی ہی کے کھوتے کھوتے
جم گیا خوں کف قاتل پہ ترا میرؔ زبس
ان نے رو رو دیا کل ہاتھ کو دھوتے دھوتے
غزل
رات گزرے ہے مجھے نزع میں روتے روتے
میر تقی میر