EN हिंदी
میر تقی میر شیاری | شیح شیری

میر تقی میر شیر

120 شیر

اب کر کے فراموش تو ناشاد کرو گے
پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کرو گے

میر تقی میر




آئے ہو گھر سے اٹھ کر میرے مکاں کے اوپر
کی تم نے مہربانی بے خانماں کے اوپر

میر تقی میر




اب مجھ ضعیف و زار کو مت کچھ کہا کرو
جاتی نہیں ہے مجھ سے کسو کی اٹھائی بات

میر تقی میر




اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ
پھر ملیں گے اگر خدا لایا

میر تقی میر




عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا

میر تقی میر




امیر زادوں سے دلی کے مل نہ تا مقدور
کہ ہم فقیر ہوئے ہیں انہیں کی دولت سے

میر تقی میر




بال و پر بھی گئے بہار کے ساتھ
اب توقع نہیں رہائی کی

میر تقی میر




بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو

میر تقی میر




بارے دنیا سے رہو غمزدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو

میر تقی میر