کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
میر تقی میر
کسو سے دل نہیں ملتا ہے یا رب
ہوا تھا کس گھڑی ان سے جدا میں
میر تقی میر
کتنی باتیں بنا کے لاؤں لیک
یاد رہتیں ترے حضور نہیں
میر تقی میر
مت رنجہ کر کسی کو کہ اپنے تو اعتقاد
دل ڈھائے کر جو کعبہ بنایا تو کیا ہوا
میر تقی میر
میرؔ عمداً بھی کوئی مرتا ہے
جان ہے تو جہان ہے پیارے
میر تقی میر
میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا
where the true saga of my weeping was contained
sodden, moist for ages then, that paper remained
میر تقی میر
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
میر تقی میر
مرثیے دل کے کئی کہہ کے دئیے لوگوں کو
شہر دلی میں ہے سب پاس نشانی اس کی
میر تقی میر
مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
میر تقی میر