آئے ہو گھر سے اٹھ کر میرے مکاں کے اوپر
کی تم نے مہربانی بے خانماں کے اوپر
میر تقی میر
آدم خاکی سے عالم کو جلا ہے ورنہ
آئینہ تھا تو مگر قابل دیدار نہ تھا
میر تقی میر
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ
میر تقی میر
آہ سحر نے سوزش دل کو مٹا دیا
اس باد نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا
میر تقی میر
عاشقوں کی خستگی بد حالی کی پروا نہیں
اے سراپا ناز تو نے بے نیازی خوب کی
میر تقی میر
آورگان عشق کا پوچھا جو میں نشاں
مشت غبار لے کے صبا نے اڑا دیا
میر تقی میر
اب دیکھ لے کہ سینہ بھی تازہ ہوا ہے چاک
پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا
میر تقی میر
اب جو اک حسرت جوانی ہے
عمر رفتہ کی یہ نشانی ہے
میر تقی میر
اب کر کے فراموش تو ناشاد کرو گے
پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کرو گے
میر تقی میر