محبت، صلح بھی پیکار بھی ہے
یہ شاخ گل بھی ہے تلوار بھی ہے
جگر مراد آبادی
وہی ہے زندگی لیکن جگرؔ یہ حال ہے اپنا
کہ جیسے زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے
جگر مراد آبادی
وہ تھے نہ مجھ سے دور نہ میں ان سے دور تھا
آتا نہ تھا نظر تو نظر کا قصور تھا
جگر مراد آبادی
وہ خلش جس سے تھا ہنگامۂ ہستی برپا
وقف بیتابئ خاموش ہوئی جاتی ہے
جگر مراد آبادی
وہ ہزار دشمن جاں سہی مجھے پھر بھی غیر عزیز ہے
جسے خاک پا تری چھو گئی وہ برا بھی ہو تو برا نہیں
جگر مراد آبادی
وہ چیز کہتے ہیں فردوس گم شدہ جس کو
کبھی کبھی تری آنکھوں میں پائی جاتی ہے
جگر مراد آبادی
اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے
جگر مراد آبادی
تجھے بھول جانا تو ممکن نہیں ہے
مگر بھول جانے کو جی چاہتا ہے
جگر مراد آبادی
ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
جگر مراد آبادی