ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
جگر مراد آبادی
تجھے بھول جانا تو ممکن نہیں ہے
مگر بھول جانے کو جی چاہتا ہے
جگر مراد آبادی
پہلے شراب زیست تھی اب زیست ہے شراب
کوئی پلا رہا ہے پئے جا رہا ہوں میں
جگر مراد آبادی
سب کو ہم بھول گئے جوش جنوں میں لیکن
اک تری یاد تھی ایسی جو بھلائی نہ گئی
جگر مراد آبادی
ساز الفت چھڑ رہا ہے آنسوؤں کے ساز پر
مسکرائے ہم تو ان کو بد گمانی ہو گئی
جگر مراد آبادی
راحت بے خلش اگر مل بھی گئی تو کیا مزا
تلخئ غم بھی چاہئے بادۂ خوش گوار میں
جگر مراد آبادی
پھول کھلے ہیں گلشن گلشن
لیکن اپنا اپنا دامن
جگر مراد آبادی
نہ غرض کسی سے نہ واسطہ مجھے کام اپنے ہی کام سے
ترے ذکر سے تری فکر سے تری یاد سے ترے نام سے
جگر مراد آبادی
مجھی میں رہے مجھ سے مستور ہو کر
بہت پاس نکلے بہت دور ہو کر
جگر مراد آبادی