EN हिंदी
جگر مراد آبادی شیاری | شیح شیری

جگر مراد آبادی شیر

147 شیر

ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

جگر مراد آبادی




تجھے بھول جانا تو ممکن نہیں ہے
مگر بھول جانے کو جی چاہتا ہے

جگر مراد آبادی




پہلے شراب زیست تھی اب زیست ہے شراب
کوئی پلا رہا ہے پئے جا رہا ہوں میں

جگر مراد آبادی




سب کو ہم بھول گئے جوش جنوں میں لیکن
اک تری یاد تھی ایسی جو بھلائی نہ گئی

جگر مراد آبادی




ساز الفت چھڑ رہا ہے آنسوؤں کے ساز پر
مسکرائے ہم تو ان کو بد گمانی ہو گئی

جگر مراد آبادی




راحت بے خلش اگر مل بھی گئی تو کیا مزا
تلخئ غم بھی چاہئے بادۂ خوش گوار میں

جگر مراد آبادی




پھول کھلے ہیں گلشن گلشن
لیکن اپنا اپنا دامن

جگر مراد آبادی




نہ غرض کسی سے نہ واسطہ مجھے کام اپنے ہی کام سے
ترے ذکر سے تری فکر سے تری یاد سے ترے نام سے

جگر مراد آبادی




مجھی میں رہے مجھ سے مستور ہو کر
بہت پاس نکلے بہت دور ہو کر

جگر مراد آبادی