بن جاؤں نہ بیگانۂ آداب محبت
اتنا نہ قریب آؤ مناسب تو یہی ہے
جگر مراد آبادی
برابر سے بچ کر گزر جانے والے
یہ نالے نہیں بے اثر جانے والے
جگر مراد آبادی
بھلانا ہمارا مبارک مبارک
مگر شرط یہ ہے نہ یاد آئیے گا
جگر مراد آبادی
بگڑا ہوا ہے رنگ جہان خراب کا
بھر لوں نظر میں حسن کسی کے شباب کا
جگر مراد آبادی
چشم پر نم زلف آشفتہ نگاہیں بے قرار
اس پشیمانی کے صدقہ میں پشیماں ہو گیا
جگر مراد آبادی
داستان غم دل ان کو سنائی نہ گئی
بات بگڑی تھی کچھ ایسی کہ بنائی نہ گئی
جگر مراد آبادی
درد و غم دل کی طبیعت بن گئے
اب یہاں آرام ہی آرام ہے
the heart is accustomed to sorrow and pain
in lasting comfort now I can remain
جگر مراد آبادی
دھڑکنے لگا دل نظر جھک گئی
کبھی ان سے جب سامنا ہو گیا
جگر مراد آبادی
دل گیا رونق حیات گئی
غم گیا ساری کائنات گئی
جگر مراد آبادی