اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں
جگر مراد آبادی
اللہ رے چشم یار کی معجز بیانیاں
ہر اک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے
جگر مراد آبادی
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل
ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا
جگر مراد آبادی
بہت حسین سہی صحبتیں گلوں کی مگر
وہ زندگی ہے جو کانٹوں کے درمیاں گزرے
جگر مراد آبادی
بیٹھے ہوئے رقیب ہیں دل بر کے آس پاس
کانٹوں کا ہے ہجوم گل تر کے آس پاس
جگر مراد آبادی
بن جاؤں نہ بیگانۂ آداب محبت
اتنا نہ قریب آؤ مناسب تو یہی ہے
جگر مراد آبادی
برابر سے بچ کر گزر جانے والے
یہ نالے نہیں بے اثر جانے والے
جگر مراد آبادی
بھلانا ہمارا مبارک مبارک
مگر شرط یہ ہے نہ یاد آئیے گا
جگر مراد آبادی
بگڑا ہوا ہے رنگ جہان خراب کا
بھر لوں نظر میں حسن کسی کے شباب کا
جگر مراد آبادی