وہ خلش جس سے تھا ہنگامۂ ہستی برپا
وقف بیتابئ خاموش ہوئی جاتی ہے
جگر مراد آبادی
وہ تھے نہ مجھ سے دور نہ میں ان سے دور تھا
آتا نہ تھا نظر تو نظر کا قصور تھا
جگر مراد آبادی
یہ راز سن رہے ہیں اک موج دلنشیں سے
ڈوبے ہیں ہم جہاں پر ابھریں گے پھر وہیں سے
جگر مراد آبادی
زندگی اک حادثہ ہے اور کیسا حادثہ
موت سے بھی ختم جس کا سلسلہ ہوتا نہیں
جگر مراد آبادی
زاہد کا دل نہ خاطر مے خوار توڑیئے
سو بار توبہ کیجئے سو بار توڑیئے
جگر مراد آبادی
یوں زندگی گزار رہا ہوں ترے بغیر
جیسے کوئی گناہ کئے جا رہا ہوں میں
جگر مراد آبادی
یہ روز و شب یہ صبح و شام یہ بستی یہ ویرانہ
سبھی بیدار ہیں انساں اگر بیدار ہو جائے
جگر مراد آبادی
یہ مے خانہ ہے بزم جم نہیں ہے
یہاں کوئی کسی سے کم نہیں ہے
جگر مراد آبادی
یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
جگر مراد آبادی