کسی صورت نمود سوز پنہانی نہیں جاتی
بجھا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی نہیں جاتی
نہیں جاتی کہاں تک فکر انسانی نہیں جاتی
مگر اپنی حقیقت آپ پہچانی نہیں جاتی
نگاہوں کو خزاں نا آشنا بننا تو آ جائے
چمن جب تک چمن ہے جلوہ سامانی نہیں جاتی
پشیمان ستم وہ دل ہی دل میں رہتے ہیں لیکن
خوشا حسنے کہ طرز ناپشیمانی نہیں جاتی
مزاج اہل دل بے کیف و مستی رہ نہیں سکتا
کہ جیسے نکہت گل سے پریشانی نہیں جاتی
صداقت ہو تو دل سینوں سے کھنچنے لگتے ہیں واعظ
حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی
بلندی چاہیئے انسان کی فطرت میں پوشیدہ
کوئی ہو بھیس لیکن شان سلطانی نہیں جاتی
گئے وہ دن کہ دل سرمایہ دار درد پیہم تھا
مگر آنکھوں کی اب تک میر سامانی نہیں جاتی
جسے رونق ترے قدموں نے دے کر چھین لی رونق
وہ لاکھ آباد ہو اس گھر کی ویرانی نہیں جاتی
وہ یوں دل سے گزرتے ہیں کہ آہٹ تک نہیں ہوتی
وہ یوں آواز دیتے ہیں کہ پہچانی نہیں جاتی
مجھے تو کر دیا سیراب ساقی نے مرے لیکن
مری سیرابیوں کی تشنہ سامانی نہیں جاتی
نہیں معلوم کس عالم میں حسن یار دیکھا تھا
کوئی عالم ہو لیکن دل کی حیرانی نہیں جاتی
جلے جاتے ہیں بڑھ بڑھ کر مٹے جاتے ہیں گر گر کر
حضور شمع پروانوں کی نادانی نہیں جاتی
محبت میں اک ایسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے
کہ آنسو خشک ہو جاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی
جگرؔ وہ بھی ز سر تا پا محبت ہی محبت ہیں
مگر ان کی محبت صاف پہچانی نہیں جاتی
غزل
کسی صورت نمود سوز پنہانی نہیں جاتی
جگر مراد آبادی