اس کی نظروں میں انتخاب ہوا
دل عجب حسن سے خراب ہوا
عشق کا سحر کامیاب ہوا
میں تیرا تو مرا جواب ہوا
ہر نفس موج اضطراب ہوا
زندگی کیا ہوئی عذاب ہوا
جذبۂ شوق کامیاب ہوا
آج مجھ سے انہیں حجاب ہوا
میں بنوں کس لیے نہ مست شراب
کیوں مجسم کوئی شباب ہوا
نگۂ ناز لے خبر ورنہ
درد محبوب اضطراب ہوا
میری بربادیاں درست مگر
تو بتا کیا تجھے ثواب ہوا
عین قربت بھی عین فرقت بھی
ہائے وہ قطرہ جو حباب ہوا
مستیاں ہر طرف ہیں آوارہ
کون غارت گر شراب ہوا
دل کو چھونا نہ اے نسیم کرم
اب یہ دل روکش حباب ہوا
عشق بے امتیاز کے ہاتھوں
حسن خود بھی شکست یاب ہوا
جب وہ آئے تو پیشتر سب سے
میری آنکھوں کو اذن خواب ہوا
دل کی ہر چیز جگمگا اٹھی
آج شاید وہ بے نقاب ہوا
دور ہنگامۂ نشاط نہ پوچھ
اب وہ سب کچھ خیال و خواب ہوا
تو نے جس اشک پر نظر ڈالی
جوش کھا کر وہی شراب ہوا
ستم خاص یار کی ہے قسم
کرم یار بے حساب ہوا
غزل
اس کی نظروں میں انتخاب ہوا
جگر مراد آبادی