ساری دنیا کے غم ہمارے ہیں
اور ستم یہ کہ ہم تمہارے ہیں
جون ایلیا
ساری گلی سنسان پڑی تھی باد فنا کے پہرے میں
ہجر کے دالان اور آنگن میں بس اک سایہ زندہ تھا
جون ایلیا
سب میرے بغیر مطمئن ہیں
میں سب کے بغیر جی رہا ہوں
جون ایلیا
سب سے پر امن واقعہ یہ ہے
آدمی آدمی کو بھول گیا
جون ایلیا
شام ہوئی ہے یار آئے ہیں یاروں کے ہم راہ چلیں
آج وہاں قوالی ہوگی جونؔ چلو درگاہ چلیں
جون ایلیا
شاید وہ دن پہلا دن تھا پلکیں بوجھل ہونے کا
مجھ کو دیکھتے ہی جب اس کی انگڑائی شرمائی ہے
جون ایلیا
شب جو ہم سے ہوا معاف کرو
نہیں پی تھی بہک گئے ہوں گے
جون ایلیا
شیشے کے اس طرف سے میں سب کو تک رہا ہوں
مرنے کی بھی کسی کو فرصت نہیں ہے مجھ میں
جون ایلیا
سوچتا ہوں کہ اس کی یاد آخر
اب کسے رات بھر جگاتی ہے
جون ایلیا