EN हिंदी
جون ایلیا شیاری | شیح شیری

جون ایلیا شیر

159 شیر

ساری دنیا کے غم ہمارے ہیں
اور ستم یہ کہ ہم تمہارے ہیں

جون ایلیا




ساری گلی سنسان پڑی تھی باد فنا کے پہرے میں
ہجر کے دالان اور آنگن میں بس اک سایہ زندہ تھا

جون ایلیا




سب میرے بغیر مطمئن ہیں
میں سب کے بغیر جی رہا ہوں

جون ایلیا




سب سے پر امن واقعہ یہ ہے
آدمی آدمی کو بھول گیا

جون ایلیا




شام ہوئی ہے یار آئے ہیں یاروں کے ہم راہ چلیں
آج وہاں قوالی ہوگی جونؔ چلو درگاہ چلیں

جون ایلیا




شاید وہ دن پہلا دن تھا پلکیں بوجھل ہونے کا
مجھ کو دیکھتے ہی جب اس کی انگڑائی شرمائی ہے

جون ایلیا




شب جو ہم سے ہوا معاف کرو
نہیں پی تھی بہک گئے ہوں گے

جون ایلیا




شیشے کے اس طرف سے میں سب کو تک رہا ہوں
مرنے کی بھی کسی کو فرصت نہیں ہے مجھ میں

جون ایلیا




سوچتا ہوں کہ اس کی یاد آخر
اب کسے رات بھر جگاتی ہے

جون ایلیا