EN हिंदी
جون ایلیا شیاری | شیح شیری

جون ایلیا شیر

159 شیر

اب تو اس کے بارے میں تم جو چاہو وہ کہہ ڈالو
وہ انگڑائی میرے کمرے تک تو بڑی روحانی تھی

جون ایلیا




آئینوں کو زنگ لگا
اب میں کیسا لگتا ہوں

جون ایلیا




اب نہیں ملیں گے ہم کوچۂ تمنا میں
کوچۂ تمنا میں اب نہیں ملیں گے ہم

جون ایلیا




اب مری کوئی زندگی ہی نہیں
اب بھی تم میری زندگی ہو کیا

جون ایلیا




اب کہ جب جانانہ تم کو ہے سبھی پر اعتبار
اب تمہیں جانانہ مجھ پر اعتبار آیا تو کیا

جون ایلیا




اب خاک اڑ رہی ہے یہاں انتظار کی
اے دل یہ بام و در کسی جان جہاں کے تھے

جون ایلیا




اب جو رشتوں میں بندھا ہوں تو کھلا ہے مجھ پر
کب پرند اڑ نہیں پاتے ہیں پروں کے ہوتے

جون ایلیا




آخری بات تم سے کہنا ہے
یاد رکھنا نہ تم کہا میرا

جون ایلیا




آج مجھ کو بہت برا کہہ کر
آپ نے نام تو لیا میرا

جون ایلیا