کیا ستم ہے کہ اب تری صورت
غور کرنے پہ یاد آتی ہے
جون ایلیا
کیا تکلف کریں یہ کہنے میں
جو بھی خوش ہے ہم اس سے جلتے ہیں
جون ایلیا
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
جون ایلیا
میں بستر خیال پہ لیٹا ہوں اس کے پاس
صبح ازل سے کوئی تقاضا کیے بغیر
جون ایلیا
میں اس دیوار پر چڑھ تو گیا تھا
اتارے کون اب دیوار پر سے
جون ایلیا
میں جو ہوں جونؔ ایلیا ہوں جناب
اس کا بے حد لحاظ کیجئے گا
جون ایلیا
میں جرم کا اعتراف کر کے
کچھ اور ہے جو چھپا گیا ہوں
جون ایلیا
میں کہوں کس طرح یہ بات اس سے
تجھ کو جانم مجھی خطرہ ہے
جون ایلیا
میں لے کے دل کے رشتے گھر سے نکل چکا ہوں
دیوار و در کے رشتے دیوار و در میں ہوں گے
جون ایلیا