میں رہا عمر بھر جدا خود سے
یاد میں خود کو عمر بھر آیا
جون ایلیا
میں سہوں کرب زندگی کب تک
رہے آخر تری کمی کب تک
جون ایلیا
مرہم ہجر تھا عجب اکسیر
اب تو ہر زخم بھر گیا ہوگا
جون ایلیا
میری بانہوں میں بہکنے کی سزا بھی سن لے
اب بہت دیر میں آزاد کروں گا تجھ کو
جون ایلیا
میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا
جون ایلیا
مل کر تپاک سے نہ ہمیں کیجیے اداس
خاطر نہ کیجیے کبھی ہم بھی یہاں کے تھے
جون ایلیا
مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ
مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا
جون ایلیا
مری شراب کا شہرہ ہے اب زمانے میں
سو یہ کرم ہے تو کس کا ہے اب بھی آ جاؤ
جون ایلیا
مجھ کو عادت ہے روٹھ جانے کی
آپ مجھ کو منا لیا کیجے
جون ایلیا