اے صبح میں اب کہاں رہا ہوں
خوابوں ہی میں صرف ہو چکا ہوں
سب میرے بغیر مطمئن ہیں
میں سب کے بغیر جی رہا ہوں
کیا ہے جو بدل گئی ہے دنیا
میں بھی تو بہت بدل گیا ہوں
گو اپنے ہزار نام رکھ لوں
پر اپنے سوا میں اور کیا ہوں
میں جرم کا اعتراف کر کے
کچھ اور ہے جو چھپا گیا ہوں
میں اور فقط اسی کی خواہش
اخلاق میں جھوٹ بولتا ہوں
اک شخص جو مجھ سے وقت لے کر
آج آ نہ سکا تو خوش ہوا ہوں
ہر شخص سے بے نیاز ہو جا
پھر سب سے یہ کہہ کہ میں خدا ہوں
چرکے تو تجھے دیے ہیں میں نے
پر خون بھی میں ہی تھوکتا ہوں
رویا ہوں تو اپنے دوستوں میں
پر تجھ سے تو ہنس کے ہی ملا ہوں
اے شخص میں تیری جستجو سے
بے زار نہیں ہوں تھک گیا ہوں
میں شام و سحر کا نغمہ گر تھا
اب تھک کے کراہنے لگا ہوں
کل پر ہی رکھو وفا کی باتیں
میں آج بہت بجھا ہوا ہوں
غزل
اے صبح میں اب کہاں رہا ہوں
جون ایلیا