تجھ میں پڑا ہوا ہوں حرکت نہیں ہے مجھ میں
حالت نہ پوچھیو تو حالت نہیں ہے مجھ میں
اب تو نظر میں آ جا بانہوں کے گھر میں آ جا
اے جان تیری کوئی صورت نہیں ہے مجھ میں
اے رنگ رنگ میں آ آغوش تنگ میں آ
باتیں ہی رنگ کی ہیں رنگت نہیں ہے مجھ میں
اپنے میں ہی کسی کی ہو روبروئی مجھ کو
ہوں خود سے روبرو ہوں ہمت نہیں ہے مجھ میں
اب تو سمٹ کے آ جا اور روح میں سما جا
ویسے کسی کی پیارے وسعت نہیں ہے مجھ میں
شیشے کے اس طرف سے میں سب کو تک رہا ہوں
مرنے کی بھی کسی کو فرصت نہیں ہے مجھ میں
تم مجھ کو اپنے رم میں لے جاؤ ساتھ اپنے
اپنے سے اے غزالو وحشت نہیں ہے مجھ میں
غزل
تجھ میں پڑا ہوا ہوں حرکت نہیں ہے مجھ میں
جون ایلیا