EN हिंदी
داغؔ دہلوی شیاری | شیح شیری

داغؔ دہلوی شیر

174 شیر

بے طلب جو ملا ملا مجھ کو
بے غرض جو دیا دیا تو نے

داغؔ دہلوی




بے زبانی زباں نہ ہو جائے
راز الفت عیاں نہ ہو جائے

داغؔ دہلوی




بھرے ہیں تجھ میں وہ لاکھوں ہنر اے مجمع خوبی
ملاقاتی ترا گویا بھری محفل سے ملتا ہے

داغؔ دہلوی




بھویں تنتی ہیں خنجر ہاتھ میں ہے تن کے بیٹھے ہیں
کسی سے آج بگڑی ہے کہ وہ یوں بن کے بیٹھے ہیں

داغؔ دہلوی




چاہ کی چتون میں آنکھ اس کی شرمائی ہوئی
تاڑ لی مجلس میں سب نے سخت رسوائی ہوئی

داغؔ دہلوی




چاک ہو پردۂ وحشت مجھے منظور نہیں
ورنہ یہ ہاتھ گریبان سے کچھ دور نہیں

داغؔ دہلوی




چھیڑ معشوق سے کیجے تو ذرا تھم تھم کر
روز کے نامہ و پیغام برے ہوتے ہیں

داغؔ دہلوی




چپ چاپ سنتی رہتی ہے پہروں شب فراق
تصویر یار کو ہے مری گفتگو پسند

داغؔ دہلوی




داغؔ کو کون دینے والا تھا
جو دیا اے خدا دیا تو نے

داغؔ دہلوی